ایک امریکہ پلٹ لاکھ پتی کی بیٹی کا رشتہ اس کے لاکھوں کے جہیز کے لالچ میں لے لیا گیا مگر دو سال بھی نہ ہوئے کہ کروڑوں کی حرص نے لاکھوں کا جہیز لانے والی کا سہاگ اجاڑ دیا اور وہ حسرتوں و عبرت کی گٹھڑی اٹھائے میکے آگئی۔ یہ کوئی افسانے نہیں حقیقی واقعات ہیں
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم!امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے اللہ آپ کا سایہ ہم پر ہمیشہ رکھے۔آمین۔ہم تمام گھر کیا خاندان والے عبقری رسالہ بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ ہر ماہ کے آخر میں ہی نئے عبقری رسالہ کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ میں بھی آج اپنے پیارے ماہنامہ کیلئے ایک تحریر لیکر حاضر ہوا ہوں۔ میں نئی نسل کی بے راہ روی کو دیکھتا ہوں تو انتہائی دکھی ہوتا ہوں اور اس میں سب سے بڑا قصور وار آج کے والدین کو ٹھہراتا ہوں۔ میری تحریر آج کی نوجوان نسل کے ان والدین کے نام ہےجو بیٹیوںسے بغض رکھتے ہیں اور نوجوان نسل کی شادی سٹیٹس کے چکر میں دیر سے کرتے ہیں۔ آئیے پڑھیں اور غور کریں!
زیادہ احترام اور محبت کی حقدار صرف بیٹی
بیٹی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جو زندگی بھر اپنے والدین اور پھر خاوند کی خدمت و تابعداری میں مصروف عمل رہتی ہے‘ اولاد کا بروقت نکاح کرنا شریعت کا وہ اہم مسئلہ ہے جس میں کسی کو اختلاف کی گنجائش نہیں اور اس کی اہمیت موجودہ دور میں مزید دوچند ہو جاتی ہے۔ بیٹی کا بروقت نکاح اسے کئی قسم کے امراض سے بچاتا ہے اور اس کی زندگی اصول فطرت کے مطابق گزرتی ہے اور یہی چیزیں والدین اور بیٹی کے لیے سکون کا باعث ہوتی ہے۔ بیٹی ایک بہت ہی نازک و حساس اور مقدس و عزیز رشتہ کا نام ہے قرابت داری کے رشتوں، والدین کو چھوڑ کر کسی بھی انسان کے لیے جس دل میں سب سے زیادہ احترام اور محبت کا جذبہ ہوتا ہے وہ بیٹی ہی ہے۔ اسلام نے بیٹی کے اس رشتہ کے تقدس و احترام کو تحفظ فراہم کیا، بیٹیوں کی فضیلت بتائی اور ان کے حقوق متعین کیے، وراثت میں ان کا حصہ رکھا اور ان کی تعلیم و تربیت کی تمام ذمہ داریوں کو واضح کرکے ہر مسلمان کو انہیں پورا کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی اس پر اجر و ثواب کا بھی وعدہ کیا چنانچہ حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو آدمی بیٹیوں کی صحیح پرورش و تربیت کرے پھر ان کا نکاح کردے تو وہ قیامت کے دن میرے ایسے قریب ہوگا جیسے دو انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔
بیٹیاں بروقت نکاح کے حق سے محروم کیوں؟
لیکن آج کل کچھ ایسی چیزیں نکاح کے معاملہ کے ساتھ ہم نے وابستہ کر رکھی ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ بیٹیاں بروقت نکاح کے حق سے محروم ہیں بلکہ ان کی زندگیاں شعلوں کا ایندھن بن رہی ہیں لڑکی والے بہت ہی اونچے معیار کے رشتہ کی تلاش میں اور لڑکے والے بھی اونچے معیار اور اونچے جہیز کی حرص میں ایسے نابینا ہوتے ہیں کہ بچوں کی جلتی ہوئی جوانیاں انہیں دکھائی نہیں دیتیں‘ مال و دولت کا لالچ، ناک و غیرت کے مسائل، کاروبار‘ نوکری کے مفادات وغیرہ ایسی چیزیں جمع ہوکر ایسی آڑے آتی ہیں کہ بیٹیاں معاشرے میں جلتی اس آگ میں ستی ہوکر رہ جاتی ہیں۔
اعلیٰ معیار کی تلاش‘ بچیوں کے سرمیں چاندی
ایک بزرگ نے بجا فرمایا کہ ہندو کسی زمانے میں اپنی لڑکیوں کو بیوہ ہونے کے بعد ستی کرتے (آگ میں جلاتے) تھے اور آج مسلمان اپنی بیٹیوں کی جوانی کو ان کی شادی سے پہلے دولت و مال اور عہدہ و معیار کی آگ میں ستی کررہے ہیں۔ بیسوں واقعات ہیں کہ اعلیٰ معیار کی تلاش نے بچیوں کے سر میں چاندی اتار دی اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے حسرتوں و ارمانوں کی راکھ میں دب گئیں یا پھر کسی ایسی جگہ رشتہ ہوا جہاں اخلاقی قدروں اور رشتوں کی چاہت نہیں تھی۔ دولت کی حرص و ہوس تھی تو وہ رشتہ ناکام ہوگیا اور زندگی بھر کا دکھ بیٹی کا مقدر بن گیا۔ ایک صاحب نے اپنی بیٹی کو کروڑوں مالیت کا جہیز دیا مگر چونکہ وہاں نہ ختم ہونے والی حرص کا سامنا تھا تو ایک سال سے پہلے بیٹی کو طلاق ہوگئی۔
لاکھوں کے جہیز کے باوجود طلاق ! آخر کیوں؟
ایک امریکہ پلٹ لاکھ پتی کی بیٹی کا رشتہ اس کے لاکھوں کے جہیز کے لالچ میں لے لیا گیا مگر دو سال بھی نہ ہوئے کہ کروڑوں کی حرص نے لاکھوں کا جہیز لانے والی کا سہاگ اجاڑ دیا اور وہ حسرتوں و عبرت کی گٹھڑی اٹھائے میکے آگئی۔ یہ کوئی افسانے نہیں حقیقی واقعات ہیں جو ہمارے معاشرے میں ہوئے ‘ہماری اہل معاشرہ سے درخواست ہے کہ خدارا بچیوں کو اس ظلم سے بچائو، سادگی و قناعت اپنائو‘ جونہی مناسب رشتہ تو اب مزید کسی لالچ و مفاد کو راہ نہ دو اور اس ضروری فرض کو ادا کرکے اپنے کندھوں کا بوجھ ہلکا کرو اور اگلی نسل کا مستقبل بھی خوشگوار بنائو نہ خود اپنی زندگی کو صدمات کا نشانہ بنائے رکھو اور نہ اگلی نسل کو محرومیوں اور ناچاقیوں کی سوغاتیں بانٹو۔
امیر شریعت نے بیٹیوں کے متعلق کیا فرمایا
امیر شریعت حضرت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ سے کسی نے بیٹیوں کے حقوق کے بارے میں عام معاشرے کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا ’’ہائے وہ بیٹیاں تم جس کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ دیدو وہ اُف کیے بغیر تمہاری پگڑیوں اورڈاڑھیوں کی لاج رکھنے کے لیے ان کے ساتھ ہو لیتی ہیں‘ سسرال میں جب میکے کی یاد آتی ہے چھپ چھپ کر رو لیتی ہیں کبھی دھوئیں کے بہانے آنسو بہا کر جی ہلکا کرلیا آٹا گوندھتے ہوئے جو آنسو بہتے ہیں وہ آٹے میں جذب ہوکر رہ جاتے ہیں کوئی نہیں جانتا کہ اس روٹی میں اس بیٹی کے آنسو شامل ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں